pakappstor.blogspot.com

وہ کون سے چار مل کے جو پاکستان کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں

*4 دنوں کی جنگ میں 4 ممالک کا شکار۔۔۔* *پاکستان پر حملہ اور منصوبہ بندی میں 4 ممالک شامل تھے۔* *جن کے نام الف سے شروع ہوتے ہیں* *انڈیا ۔۔۔ ایران ۔۔۔ اسرائیل ۔۔۔ امریکہ* *اسرائیل نے انتہائی مہلک سپائس 2000 میزائل اور اپنے پائلٹ انڈیا کو دیے، جو جدید ترین روسی ساختہ سخوئی 30 جنگی طیارے اڑا رہے تھے۔۔۔* *ایسا ہی ایک طیارہ پاکستان کی حدود میں آ گرا اور دوسرا ھٹ ہو کر بڈگام میں جا گرا اسکا پائلٹ جل کر مر گیا جو اطلاعات کے مطابق اسرائیلی تھا۔۔۔* *ایران بلوچستان پر قبضہ کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا، ایران اور انڈیا کی کمٹمنٹ تھی کہ انڈیا پاکستان کی فوج کو پوری طرح انگیج کرے گا اور پھر ایران میدان خالی دیکھ کر اپنے ہاں دھشتگردی کا مدعا لے کر بلوچستان پر قبضہ کا دعوی کرکے اسکو ایرانی علاقہ قرار دے گا۔۔۔* *یاد رھے کہ اسرائیل کے بعد ایران ہی وہ ملک ہے جس میں سب سے زیادہ یہودی (13 لاکھ) بستے ہیں* *اور ایرانی اسمبلی میں باقاعدہ 13 یہودی ارکان ہیں۔۔۔* *ایران اور انڈیا کا آپس میں معاہدہ ھے کہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ کی صورت میں ایران انڈیا کو اپنے ھوائی اڈے، بندرگاہیں اور ہر طرح کی اسٹریٹجک مدد دے گا۔۔۔* *ایران کسی بھی طرح سے مسلمان ملکوں کیلیے وفادار نہیں وہ سعودی عرب اور اسکے حلیف ممالک کے خلاف صف آراء ھے۔۔۔ آپکے دشمن کا دوست کبھی آپکا مخلص دوست نہیں بن سکتا۔۔۔* *عین اسی وقت افغانستان کے ایک ائربیس(ھلمند) پر موجود امریکی اور اسرائیلی کمانڈوز انڈیا کو ساتھ لے کر ایبٹ آباد آپریشن کی یاد تازہ کرنے کی تیاری کررھے تھے۔۔۔ اور اس دفعہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تھا۔۔۔ اس ائیر بیس کو افغان طالبان نے عبرت کا نشان بنا کر پاکستان کے احسانات کا بدلہ اتارنے کی کوشش کی۔۔۔* *دوسری جانب زمینی جنگ میں انڈین فوج نے اسرائیلی کمانڈوز کے ساتھ ملکر کراچی اور بہاولپور پر حملہ کر کے پاکستان کی افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔۔۔ اس دوران وسیع پیمانے پر سپائس 2000 نامی انتہائی مہلک سیٹیلائٹ گائیڈز میزائلوں کی برسات کی جانی تھی جس سے پاکستان زبردست تباہی کا شکار ہو جاتا۔۔۔ سپائس 2000 میزالوں سے اسرائیل نے شام کے شہر حلب کو تباہ کردیا تھا۔۔۔ اس میزائل میں انتہائی مہلک 2000 نامی بارود ہوتا ہے جو 3 سے 5 کلومیٹر تک علاقہ تباہ کر دیتا ہے۔۔۔* *انڈین پائلٹ پاکستان کی حدود میں اپنا جو فالتو سامان گرا کر بھاگے تھے اس کے ساتھ 4 سپائس2000 میزائیل بھی گرا گئے تھے۔۔۔ جس پر پاکستانی سائنسدان ریسرچ کررہے ہیں عنقریب پاکستان خود سپائیس ٹیکنالوجی اپنے ہتھیاروں میں استعمال کر رہا ہوگا۔۔۔ ان شاءاللہ* *مقصد پاکستان کو 48 گھنٹوں میں تہہ نہس کر دینا تھا لیکن ھمارے محافظوں کو تمام منصوبے کا بروقت علم ھوا گیا اور پھر جو ہوا وہ آپکے سامنے ھے۔۔۔* *ایک اور جانب امریکی اور اسرائیلی کمانڈوز افغانستان میں اپنی مکمل تیاری کے ساتھ بیٹھے تھے کہ جنگ شروع ہوتے ہی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کر لیں گے اور ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیں گے۔۔۔ مگر isi نے انکو بڑے ہی عمدہ طریقے سے ٹھکانے لگا دیا اور پورا امریکی ایئربیس طالبان نے فارغ کر ڈالا۔۔۔* *افغانستان اور ایران کی سرحد چاہ بہار کے قریب واقع صوبہ ھلمند کے شہر شوراب اور اواشیر کے درمیان امریکی اور افغان فورسز کی مشترکہ ملٹری بیس (بیسٹن امریکن بیس) پرطالبان کے اس حملے میں تقریباً 137 امریکی میرینز، 70 کے قریب بھارتی را کے افسران ، اور 100 سے زائد افغان این ڈی ایس کے اہم افسران ہلاک ھوئے ھیں۔۔۔ اس ساری کاروائی میں کل 397 فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ اعداد و شمار سے باھر نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ھے۔۔۔* *روس کو جب سے پاکستان نے سی پیک منصوبے میں شمولیت کی دعوت دی ہے وہ پاکستان کا اتحادی بن گیا ھے۔۔۔ موجودہ حالات میں روس نے پاکستان کو انتہائی حساس معلومات دے کر حملے کو ناکام بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔* *پاکستان نے ان اہم معلومات کی مدد سے انڈیا میں 35 ٹارگٹ سلیکٹ کر کے انکی لسٹ بمعہ ایگزیکٹ لوکیشن سرخ دائرے لگا کر آنڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت اور وزیر دفاع راج ناتھ کو بھجوا دیں تھی۔۔۔ جس کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا انڈیا کو فوراً اپنے جنگی منصوبوں پر بریک لگانی پڑ گئی۔۔۔* *اور JF17 طیاروں کے لئے چائنہ ساختہ BL15 میزائل بھی پاکستان کو اسی دوران فراھم کئے گئے جن کا توڑ اس وقت دنیا کے کسی ملک کے پاس نہیں ھے۔۔۔* *مستقبل میں جہاں پاکستان کا چائنہ سے ایک کثیر الجہتی اتحاد سامنے آ رھا ھے ویسے ھی پاکستان اور روس بھی بہت قریب نظر آ رہے ہیں۔۔۔* *یہ تو تھا پاکستان پر انڈیا کی جانب سے مسلط کردہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائین اور امریکا کی جانب سے افپاک ملٹری ڈاکٹرائین کا بیان۔۔۔* *جنگ کی ابتداء ، عروج اور اختتام تک ففتھ جنریشن پروپیگنڈا وار فئیر کا جواب دینے میں آئی ایس پی آر نے جو کردار ادا کیا اس کے اثرات بھی ایسے حیران کن ہیں کہ انڈیا اور امریکا دونوں سے اس کے سامنے ھاتھ کھڑے کر دئیے ھیں۔۔۔* *پاکستان کی کامیابی کی بنیادی وجہ ISPR کی پیشہ وارانہ صلاحیت ھے۔۔۔ بھارت میں اس طرز کا ادارہ بنانے کی سوچ پیدا ہوچکی ھے۔۔۔ جنگ کے اس ماحول میں جہاں ایک طرف پاکستانی عوام اور میڈیا کے ساتھ آئی ایس پی آر کی ھم آھنگی اور اعتماد کا رشتہ سامنا آیا وھیں دوسری طرف بھارتی عوام اور میڈیا کے لئے بھی مصدقہ معلومات اور صحیح خبروں کے لئے آئی ایس پی آر کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو نفسیاتی اور بیانیہ کی اس جنگ میں بھی واضح برتری حاصل رھی۔۔۔* *دنیا بھر کو سچ بھی بتایا ، امن کا پیغام بھی دیا اور اپنا موقف بھی بیان کیا۔۔۔ خود انڈیا کا یہ حال تھا کہ جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس بھارتی میڈیا چلاتا رہا اور بعد میں جب بھارتی حکومت کو سمجھ آئی تو ان میڈیا ہاؤسز کو نوٹس جاری کرنے لگی۔۔۔* *Plz Share*

صلیبی جنگیں (آخری کست)

چوتھی صلیبی جنگ (1195ء)ترميم

ایوبی سلطان ملک العادل کے ہاتھوں مسیحیوں نے عبرتناک شکستیں کھائیں اور یافہ کا شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔

پانچویں صلیبی جنگ (1203ء)ترميم

اس جنگ کے دوران میں صلیبیوں نے بیت المقدس کے بعدقسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔

چھٹی صلیبی جنگ (1227ء)ترميم

پوپ انوسینٹ کے تحت اڑھائی لاکھ جرمنوں کی فوج شام کے ساحل پر حملہ آور ہوئی۔ عادل ایوبی نے دریائے نیل کا بند کاٹ کر ان کی راہ روکی۔ مسیحی مایوس ہو کر 1227ء میں واپس لوٹ گئے۔

ساتویں صلیبی جنگ (1227ء)ترميم

ملک کامل اور اس کے بھائیوں کے درمیان میں اختلاف کی بنا پر بیت المقدس کا شہر کامل نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔ کامل کے جانشین صالح نے دوبارہ صلیبیوں سے چھین لیا اور اس پر بدستور مسلمانوں کا قبضہ رہا۔

آٹھویں صلیبی جنگ (1248ء)ترميم

فرانس کے شہنشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا مگر صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست کھائی اور فرار کی راہ اختیار کی۔

نویں صلیبی جنگ (1268ء)ترميم

ایڈروڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس نے مل کر شام پر حملہ کیا اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر شام و فلسطینسے صلیبیوں کا وجود ختم کر دیا گیا۔ صلیبیوں کے اندر مزید جنگ کا حوصلہ نہ رہا دوسری جانب مسلمان بدستور اپنے علاقوں کی حفاظت میں مستعد تھے۔ جب اس قدر طویل جنگوں کے خاتمہ کے بعد مسیحیوں کا سوائے تباہی اور شکست کے کچھ حاصل نہ ہوا تو ان کا جنگی جنون سرد پڑ گیا۔ اس طرح صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا۔

دیگر صلیبی جنگیںترميم

بچوں کی صلیبی جنگترميم

ان کے علاوہ 1212ء میں ایک معروف صلیبی جنگ کی تیاری بھی کی گئی جسے "بچوں کی صلیبی جنگ" کہا جاتا ہے۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں اس لیے انہیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل نہیں ہو رہی جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے وہ صلیبیوں کو فتح دلائیں گے۔ اس مقصد کے لیے 37 ہزار بچوں کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ 30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ 7 ہزار جرمن بچے نکولس کی زیر قیادت تھے۔ ان بچوں میں سے کوئی بھی بیت المقدس تک نہ پہنچ سکا بلکہ فرانس کے ساحلی علاقوں اور اٹلی میں ہی یا تو تمام بچے غلام بنا لیے گئے یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنے یا آپس میں لڑکر ہی مرگئے۔ بچوں کی صلیبی جنگ پانچویں صلیبی جنگ سے قبل ہوئی تھی۔

ترکوں کے خلاف صلیبی جنگیںترميم

سلطنت عثمانیہ کے یورپ میں بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے بھی یورپیوں سے صلیبی جنگوں کے ناموں کا استعمال کیا اور 14 ویں اور 15 ویں صدی میں تین جنگیں لڑی گئیں:
  • جنگ نکوپولس 1396ء : شاہ ہنگری سجسمنڈ آف لکسمبرگ کی جانب سے بلائی گئی صلیبی جنگ جسے عام طور پر جنگ نکوپولس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ موجودہ بلغاریہ کی حدود میں نکوپولس کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں بایزید یلدرم نے فرانس اور ہنگری کے مشترکہ لشکر کو عظیم الشان شکست دی۔
  • جنگ وارنا 1444ءپولینڈ اور ہنگری کی مشترکہ فوجمراد ثانی کے ہاتھوں شکست کھاگئی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی عظیم فتوحات میں سے ایک ہے۔
  • 1456ء کی صلیبی جنگ : عثمانیوں کی جانب سےبلغراد کا کیا گیا محاصرہ ختم کرنے کے لیے لڑی گئی۔ اس وقت عثمانی فرمانروا سلطان محمد فاتح تھا جو بلغراد کو فتح کرنے میں ناکام رہا اور صلیبی لشکر نے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں 29 اگست 1521ء کو عثمانی سلطان سلیمان اول نے بلغراد کو فتح کرکےسلطنت عثمانیہ کا حصہ بنادیا۔

نتائجترميم

دو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں پر بے جا طور پر مسلط کی گئی تھیں اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئیں۔ یوں مذہبی جنونیوں نے دنیا کی ایک کثیر آبادی کو آہ فغاں اور اتھاہ اندھیروں میں دھکیل دیا۔ یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں اجنبیت کی ایک مستقل دیوار جو آج تک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان میں حائل ہے وہ ان صلیبی جنگوں کا ایک بنیادی نتیجہ ہے۔ اور آج فلسطین میں یہودی ریاستاسرائیل کا قیام اور نیو ورلڈ آڈر اسی کی ایک کڑی ہیں۔ یورپ کا جنگی جنون جب سرد پڑا تو انھیں کلیسا کے اثر و رسوخ کا پتہ چلا یوں اصلاح کلیسیا جیسی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ تاکہ حکومت پر ان کا اثر رسوخ کم کیا جاسکے۔ جب یورپ کے غیر متمدن لوگوں کا واسطہ مسلمانوں سے پڑا تو ان کی علمی و تہذیبی ترقیاں دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اسلامی تمدن سے آشنا ہو کر ان کی ذہنی کیفیت میں انقلاب پیدا ہوا اور احیائے علوم کے لیے یورپ میں فضا سازگار ہو گئی۔ یورپ میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ مستقل معاشی نظام رائج ہوا۔ اشیاء کے بدلے اشیا کی فروخت کی بجائے سکہ رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت نے بھی یورپ میں ترقی کی۔ اور یورپ کا فن تعمیر بھی اسلامی فنی تعمیرات سے متاثر ہوا۔

دسویں صلیبی جنگترميم

جارج بش قدیم صلیبیوں کے لباس میں، ایک مصور کا تخیل
11 ستمبر 2001ء کو امریکا کے شہر نیو یارک اور دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے بالترتیب ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارات پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 3 ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ امریکا نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہکے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کی جو اس وقتافغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکا نے اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ (انگریزی: War on Terror) قرار دیا۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے مسترد کرنے پر افغانستان کے خلاف کارروائی کی گئی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز تھا۔ اس جنگ کو اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے قصر ابیض میں ایک خطاب کے دوران میں صلیبی جنگ کا نام دیا تھا۔[1] انہوں نے 16 ستمبر 2001ءکو اپنے خطاب کے دوران میں کہا:
ہمیں کل اپنے کاموں پر واپس جانے کی ضرورت ہے اور ہم جائیں گے۔ لیکن ہمیں مستعد رہنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے خبیث لوگ اب بھی موجود ہیں۔ ہم نے طویل عرصے سے اس طرح کی بربریت نہیں دیکھی۔ کوئی شخص اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ خوش کش حملہ آور ہمارے معاشرے میں چھپ بیٹھیں گے اور پھر ایک ہی دن اپنے ہوائی جہاز، ہمارے امریکی ہوائی جہاز، اڑا کر معصوم لوگوں سے بھری عمارات سے ٹکرا دیں گے اور کسی قسم کی پشیمانی ظاہر نہیں کریں گے۔ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔ میری توجہ اس امر پر مرکوز ہوگی کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کی مدد کرنے والے سب افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاؤں۔ جو دہشت گردوں کو پناہ دیں گے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم 21 ویں صدی میں اپنی پہلی جنگ فیصلہ کن انداز میں جیتیں، تاکہ ہمارے بچے اور ہماری آنے والی نسلیں 21 ویں صدی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔
جارج بش کی تقریر میں crusade کے الفاظ پر یورپ اور مسلم ممالک میں کڑی تنقید کی گئی۔ بعد ازاں اس لفظ کے استعمال کی کئی وضاحتیں پیش کی گئیں۔

حوالہ جاتترميم

صلیبی جنگیں ()تیسری قسط

فوری وجہترميم

پوپ کی بلائی گئی کونسل
فوری وجہ پوپ اربن دوم کا فتوی جہاد تھا۔ فرانسیسی پیٹر جب بیت المقدس کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضہ کو بری طرح محسوس کیا۔ یورپ واپس جا کر مسیحیوں کی حالت زار کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں پیش کیں اور سلسلہ میں سارے یورپ کا دورہ کیا۔ پیٹر کے اس دورہ نے لوگوں کے اندر مذہبی دیوانگی کی سی کیفیت پیدا کر دی لیکن بدقسمتی سے اس راہب نے زائرین کی سیاہ کاریوں کے بارے میں مکمل خاموشی برتی۔ پوپ چونکہ مغربی کلیسیا کا روحانی پیشوا تھا اس لیے اس نے مختلف فرقوں کی ایک کونسل بلائی اور اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ لوگوں کو اس بات کی بشارت دی کہ جو بھی اس مقدس جنگ میں مارا جائے گا اس کے ہر قسم کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت کا حقدار ہوگا لوگ جوق در جوق سینٹ پیٹر کی قیادت میں فلسطین پر چڑھائی کی غرض سے روانہ ہوئے۔

پہلی صلیبی جنگ (1097ء تا 1145ء)ترميم

پوپ کے اعلان جہاد کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لیے روانہ ہوئے۔راہب پیٹر کی ماتحتی میں تیرہ لاکھ مسیحیوں کا ایک انبوہ کثیر قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا۔ ان لوگوں نے راستہ میں اپنے ہم مذہب لوگوں کو قتل و غارت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا۔ بلغاریہ سے گزرنے کے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ پہنچے تو رومی شہنشاہ نے ان کی اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے ان کا رخ ایشیائے کوچک کی طرف موڑ دیا۔ جب یہ اسلامی علاقہ میں داخل ہوئے تو سلجوقی حکمران قلج ارسلان نے ان کے لشکر کو تہ و بالا کر دیا اور اور ان کی کثیر تعداد قتل ہوئی۔ صلیبیوں کی یہ مہم قطعاً ناکام رہی۔
صلیبیوں کا دوسرا بڑا گروہ ایک جرمن راہب گاؤس فل کی قیادت میں روانہ ہوا۔ جب یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے اہل ہنگری تنگ آ گئے اور انہوں نے ان کو نکال دیا یہ جماعت بھی اسی طرح کیفرکردار کو پہنچی۔
صلیبیوں کا تیسرا گروہ جس میں انگلستان، فرانس اورفلانڈرز کے رضاکار شامل تھے اس مقدس جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان رضاکاروں کے ہاتھوں دریائے رائن اور موزیل کے کئی ایک شہر کے یہودی نشانہ ستم بنے۔ یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو اہل ہنگری نے ان کا صفایا کرکے ہنگری کی سرزمین کو ان کا قبرستان بنا دیا۔
سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا 1097ء میں روانہ ہوا اس میںانگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سسلی کے شہزادے شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی کمان ایک فرانسیسی گاڈ فرے کے سپرد تھی۔ ٹڈی دل کا یہ لشکر ایشیائے کوچککی طرف روانہ ہوا اور مشہور شہر قونیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلج ارسلان نے شکست کھائی۔ فتح مند مسیحی پیش قدمی کرتے ہوئے انطاکیہ پہنچ گئے نو ماہ کے بعد انطاکیہ پر بھی قبضہ ہو گیا۔ وہاں کی تمام مسلمان آبادی کو تہ تیغ کرتے ہوئے صلیبیوں نے مسلمانوں پر شرمناک مظالم ڈھائے۔ بچے بوڑھے جوان کوئی بھی ان سے بچ نہ سکا۔ تقریباً ایک لاکھ مسلمان مارے گئے۔ انطاکیہ کے بعد فتح مند لشکر شام کے متعدد شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے حمصپہنچا۔

سقوط بیت المقدسترميم

بیت المقدس پر مسیحیوں کا قبضہ
حمص پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبیوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا چونکہ فاطمیوں کی طرف سے شہر کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا تھا۔ اس لیے 15 جون 1099ء کو بیت المقدس پر ان مذہبی جنونیوں نے بڑی آسانی سے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کی حرمت کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا۔ مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا اور ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ یورپی مورخین بھی ان شرمناک مظالم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسیحیوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس رویہ سے بالکل الٹ تھا جو عمر ابن الخطاب نے چند صدیاں پیشتر بیت المقدس کی فتح کے وقت مسیحیوں سے اختیار کیا تھا۔ بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کے بعد گاڈ فرےکو بیت المقدس کا بادشاہ بنایا گیا۔ اور مفتوحہ علاقوں کو مسیحی مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ جس میں طرابلس،انطاکیہ اور شام کے علاقے شامل تھے۔ اس شکست کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی تھی، بدنظمی اور انتشار کا عمل تھا۔
سلجوقیوں کے انتشار کے دوران میں عماد الدین زنگی کی زبردست شخصیت ابھری۔ عماد الدین نے زنگی حکومت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو پھر حیات نو بخشی، موصل،حران، حلب وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرکے زنگی نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ عماد الدین نے جس جرات اور حوصلہ مندی سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زبردست شکستیں دیں وہ تاریخ اسلام کا قابل فخر باب ہے۔ عماد الدین نے قلعہ اثارب اور مصر کے سرحدی علاقوں سے مسیحیوں کو نکال کر خود قبضہ کر لیا۔ محاذ شام پر صلیبیوں کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور زنگی نے شام کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ عماد الدین زنگی کا سب سے بڑا کارنامہ بعلبک پر دوبارہ اسلامی قبضہ ہے۔

دوسری صلیبی جنگ (1187ء تا 1144ء)ترميم

لوئی ہفتم
عماد الدین کی وفات کے بعد 1144ء میں اس کا لائق بیٹانور الدین زنگی اس کا جانشین ہوا۔ صلیبیوں کے مقابلہ میں وہ اپنے باپ سے کم مستعد نہ تھا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے مسلمانوں میں جہاد کی ایک نئی روح پھونک دی اور مسیحیوں سے بیشتر علاقے چھین لیے اور انہیں ہر محاذ پر شکستیں دیتا ہوا ڈیسا، (روحا) کے شہر پر دوبارہ قابض ہو گیا۔ مسیحیوں کی شکستوں کی خبریں پورے یورپ میں پہنچیں تو ایک بار پھر پوپ یوجین سومنے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا۔ 1148ء میں جرمنی کے بادشاہکونراڈ سوم اور فرانس کے حکمران لوئی ہفتم کی قیادت میں 9 لاکھ افراد پر مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی اس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ پہلے صلیبی معرکوں کی طرح ان فوجیوں نے بھی خوب اخلاق سوز حرکتیں دوبارہ کیں۔ لوئی ہفتم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلجوقیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ چنانچہ جب وہ انطاکیہ پہنچا تو اس کی تین چوتھائی فوج برباد ہوچکی تھی۔ اب اس باقی ماندہ فوج نے آگے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کر لیا لیکن سیف الدین زنگی اور نور الدین زنگی کی مشترکہ مساعی سے صلیبی اپنے عزائم میں ناکام رہے۔ لوئی ہفتم اور کونراڈ کو دوبارہ یورپ کی سرحدوں میں دھکیل دیا گیا۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ ناکام ہوئی۔

مصر پر نور الدین کا قبضہترميم

صلاح الدین ایوبی
اس دوران میں حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں۔ یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی۔ مصر کے فاطمیخلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ مسیحیوں کے طوفان کو روک سکتا اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئےنور الدین زنگی کومصر پر حملہ کی دعوت دی۔ نور الدین نے اپنے بھائی اسد الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ اسد الدین نے مصر میں داخل ہو کر مسیحیوں کا قلع قمع کیا۔ لیکن شاور نے غداری کی اور شیر کوہ کے خلاف فرنگیوں سے ساز باز کر لی۔ 1127ء کو شیر کوہ نے دوبارہ مصر پر فوج کشی کی اور اسکندریہ پر قبضہ کے بعد مصر کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان تمام محاربات میں شیر کوہ کا ہمرکاب رہا تھا۔ شاور سعدی اپنے جرائم کی وجہ سے قتل ہوا اور شیر کوہ خلیفہعاضد کا وزیر بنا اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اس کی جگہ لی۔ خلیفہ نے الملک الناصر کا لقب دیا۔ خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین نے مصر میں عباسی خلیفہ کا خطبہ رائج کر دیا۔ مصر کا خود مختار حکمران بننے کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا۔

حطین کا معرکہترميم

صلاح الدین ایوبی کا دمشق میں مجسمہ
مصر کے علاوہ صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل،حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران میں صلیبی سردار ریجنالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔
1186ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر مسیحی امرا کے ساتھ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین میں جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ ریجنالڈ گرفتار ہوا۔ اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج مسیحی علاقوں پر چھا گئیں۔

بیت المقدس کی فتح (1178ء)ترميم

نقشے کا سرخ حصہ ان علاقوں کو ظاہر کرتا ہے جو صلاح الدین ایوبی نے فتح کیے
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ صلیبیوں کے برعکس سلطان نے مسیحیوں پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دی اور انہیں چالیس دن کے اندر شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی۔ رحمدل سلطان نے فدیہ کی نہایت ہی معمولی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ ادا نہ کر سکے انہیں بغیر ادائیگی فدیہ شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض اشخاص کا زر فدیہ سلطان نے خود ادا کیا اور انہیں آزادی دی۔ بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا ۔

تیسری صلیبی جنگ (1189ء تا 1192ء)ترميم



رچرڈ شیر دل
بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغام اجل سے کم نہ تھا۔ اس فتح کی خبر پر سارے یورپ میں پھر تہلکہ مچ گیا۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ میں سارا یورپ شریک تھا۔ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا، شاہ فرانس فلپ آگسٹس اور شاہ انگلستان رچرڈ شیر دلنے بہ نفس نفیس ان جنگوں میں شرکت کی۔ پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گھوم کر مسیحیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔
مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہکی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہوتے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو مسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور پانچ سو مسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ وہ تمام مال اسباب لے کے شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک مسیحیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جوانمردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران میں سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
باربروسا کی ہلاکت
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے مسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا اور تقریباً چھ لاکھ مسیحی ان جنگوں میں کام آئے۔
معاہدہ کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
  1. بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
  2. ارسوف، حیفا، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے
  3. عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔
  4. زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔
  5. صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ۔