pakappstor.blogspot.com

صلیبی جنگیں (آخری کست)

چوتھی صلیبی جنگ (1195ء)ترميم

ایوبی سلطان ملک العادل کے ہاتھوں مسیحیوں نے عبرتناک شکستیں کھائیں اور یافہ کا شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔

پانچویں صلیبی جنگ (1203ء)ترميم

اس جنگ کے دوران میں صلیبیوں نے بیت المقدس کے بعدقسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔

چھٹی صلیبی جنگ (1227ء)ترميم

پوپ انوسینٹ کے تحت اڑھائی لاکھ جرمنوں کی فوج شام کے ساحل پر حملہ آور ہوئی۔ عادل ایوبی نے دریائے نیل کا بند کاٹ کر ان کی راہ روکی۔ مسیحی مایوس ہو کر 1227ء میں واپس لوٹ گئے۔

ساتویں صلیبی جنگ (1227ء)ترميم

ملک کامل اور اس کے بھائیوں کے درمیان میں اختلاف کی بنا پر بیت المقدس کا شہر کامل نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔ کامل کے جانشین صالح نے دوبارہ صلیبیوں سے چھین لیا اور اس پر بدستور مسلمانوں کا قبضہ رہا۔

آٹھویں صلیبی جنگ (1248ء)ترميم

فرانس کے شہنشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا مگر صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست کھائی اور فرار کی راہ اختیار کی۔

نویں صلیبی جنگ (1268ء)ترميم

ایڈروڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس نے مل کر شام پر حملہ کیا اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر شام و فلسطینسے صلیبیوں کا وجود ختم کر دیا گیا۔ صلیبیوں کے اندر مزید جنگ کا حوصلہ نہ رہا دوسری جانب مسلمان بدستور اپنے علاقوں کی حفاظت میں مستعد تھے۔ جب اس قدر طویل جنگوں کے خاتمہ کے بعد مسیحیوں کا سوائے تباہی اور شکست کے کچھ حاصل نہ ہوا تو ان کا جنگی جنون سرد پڑ گیا۔ اس طرح صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا۔

دیگر صلیبی جنگیںترميم

بچوں کی صلیبی جنگترميم

ان کے علاوہ 1212ء میں ایک معروف صلیبی جنگ کی تیاری بھی کی گئی جسے "بچوں کی صلیبی جنگ" کہا جاتا ہے۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں اس لیے انہیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل نہیں ہو رہی جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے وہ صلیبیوں کو فتح دلائیں گے۔ اس مقصد کے لیے 37 ہزار بچوں کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ 30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ 7 ہزار جرمن بچے نکولس کی زیر قیادت تھے۔ ان بچوں میں سے کوئی بھی بیت المقدس تک نہ پہنچ سکا بلکہ فرانس کے ساحلی علاقوں اور اٹلی میں ہی یا تو تمام بچے غلام بنا لیے گئے یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنے یا آپس میں لڑکر ہی مرگئے۔ بچوں کی صلیبی جنگ پانچویں صلیبی جنگ سے قبل ہوئی تھی۔

ترکوں کے خلاف صلیبی جنگیںترميم

سلطنت عثمانیہ کے یورپ میں بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے بھی یورپیوں سے صلیبی جنگوں کے ناموں کا استعمال کیا اور 14 ویں اور 15 ویں صدی میں تین جنگیں لڑی گئیں:
  • جنگ نکوپولس 1396ء : شاہ ہنگری سجسمنڈ آف لکسمبرگ کی جانب سے بلائی گئی صلیبی جنگ جسے عام طور پر جنگ نکوپولس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ موجودہ بلغاریہ کی حدود میں نکوپولس کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں بایزید یلدرم نے فرانس اور ہنگری کے مشترکہ لشکر کو عظیم الشان شکست دی۔
  • جنگ وارنا 1444ءپولینڈ اور ہنگری کی مشترکہ فوجمراد ثانی کے ہاتھوں شکست کھاگئی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی عظیم فتوحات میں سے ایک ہے۔
  • 1456ء کی صلیبی جنگ : عثمانیوں کی جانب سےبلغراد کا کیا گیا محاصرہ ختم کرنے کے لیے لڑی گئی۔ اس وقت عثمانی فرمانروا سلطان محمد فاتح تھا جو بلغراد کو فتح کرنے میں ناکام رہا اور صلیبی لشکر نے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں 29 اگست 1521ء کو عثمانی سلطان سلیمان اول نے بلغراد کو فتح کرکےسلطنت عثمانیہ کا حصہ بنادیا۔

نتائجترميم

دو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں پر بے جا طور پر مسلط کی گئی تھیں اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئیں۔ یوں مذہبی جنونیوں نے دنیا کی ایک کثیر آبادی کو آہ فغاں اور اتھاہ اندھیروں میں دھکیل دیا۔ یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں اجنبیت کی ایک مستقل دیوار جو آج تک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان میں حائل ہے وہ ان صلیبی جنگوں کا ایک بنیادی نتیجہ ہے۔ اور آج فلسطین میں یہودی ریاستاسرائیل کا قیام اور نیو ورلڈ آڈر اسی کی ایک کڑی ہیں۔ یورپ کا جنگی جنون جب سرد پڑا تو انھیں کلیسا کے اثر و رسوخ کا پتہ چلا یوں اصلاح کلیسیا جیسی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ تاکہ حکومت پر ان کا اثر رسوخ کم کیا جاسکے۔ جب یورپ کے غیر متمدن لوگوں کا واسطہ مسلمانوں سے پڑا تو ان کی علمی و تہذیبی ترقیاں دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اسلامی تمدن سے آشنا ہو کر ان کی ذہنی کیفیت میں انقلاب پیدا ہوا اور احیائے علوم کے لیے یورپ میں فضا سازگار ہو گئی۔ یورپ میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ مستقل معاشی نظام رائج ہوا۔ اشیاء کے بدلے اشیا کی فروخت کی بجائے سکہ رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت نے بھی یورپ میں ترقی کی۔ اور یورپ کا فن تعمیر بھی اسلامی فنی تعمیرات سے متاثر ہوا۔

دسویں صلیبی جنگترميم

جارج بش قدیم صلیبیوں کے لباس میں، ایک مصور کا تخیل
11 ستمبر 2001ء کو امریکا کے شہر نیو یارک اور دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے بالترتیب ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارات پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 3 ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ امریکا نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہکے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کی جو اس وقتافغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکا نے اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ (انگریزی: War on Terror) قرار دیا۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے مسترد کرنے پر افغانستان کے خلاف کارروائی کی گئی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز تھا۔ اس جنگ کو اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے قصر ابیض میں ایک خطاب کے دوران میں صلیبی جنگ کا نام دیا تھا۔[1] انہوں نے 16 ستمبر 2001ءکو اپنے خطاب کے دوران میں کہا:
ہمیں کل اپنے کاموں پر واپس جانے کی ضرورت ہے اور ہم جائیں گے۔ لیکن ہمیں مستعد رہنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے خبیث لوگ اب بھی موجود ہیں۔ ہم نے طویل عرصے سے اس طرح کی بربریت نہیں دیکھی۔ کوئی شخص اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ خوش کش حملہ آور ہمارے معاشرے میں چھپ بیٹھیں گے اور پھر ایک ہی دن اپنے ہوائی جہاز، ہمارے امریکی ہوائی جہاز، اڑا کر معصوم لوگوں سے بھری عمارات سے ٹکرا دیں گے اور کسی قسم کی پشیمانی ظاہر نہیں کریں گے۔ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔ میری توجہ اس امر پر مرکوز ہوگی کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کی مدد کرنے والے سب افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاؤں۔ جو دہشت گردوں کو پناہ دیں گے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم 21 ویں صدی میں اپنی پہلی جنگ فیصلہ کن انداز میں جیتیں، تاکہ ہمارے بچے اور ہماری آنے والی نسلیں 21 ویں صدی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔
جارج بش کی تقریر میں crusade کے الفاظ پر یورپ اور مسلم ممالک میں کڑی تنقید کی گئی۔ بعد ازاں اس لفظ کے استعمال کی کئی وضاحتیں پیش کی گئیں۔

حوالہ جاتترميم

No comments:

Post a Comment