pakappstor.blogspot.com

صلیبی جنگیں (دوسری قسط )

صلیبی جنگیں (انگریزی: Crusades) مذہبی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جسے قرون وسطی میں لاطینی کلیسیا نے منظور کیا، جس میں خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کی مہمات جن کا مقصد ارض مقدسہ کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرانا تھا۔

تعارفترميم

1095ء سے 1291ء تک ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے مسیحیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنہیں تاریخ میں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیںفلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران میں نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ فلسطین اور بیت المقدس کا شہرعمر ابن الخطاب کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور مسیحیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ گیارھویں صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتاً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری ،تعصب، بدعہدی، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔

اسبابترميم

صلیبی جنگوں کے اصل اسباب مذہبی تھے مگر اسے بعض سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ یہ مذہبی اسباب کچھ معاشرتی پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ پیٹر راہب جس نے اس جنگ کے لیے ابھارا، اس کے تعلقات کچھ مالدار یہودیوں سے بھی تھے۔ پیٹر راہب کے علاوہ بعض بادشاہوں کا خیال تھا کہ اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے معاشی حالات سدھر سکتے ہیں۔ غرض ان جنگوں کا کوئی ایک سبب نہیں مگر مذہبی پس منظر سب سے اہم ہے۔

مذہبی اسبابترميم

یوروشلم کی پرانی تصویر
فلسطین یسوع مسیح کی جائے پیدائش تھا۔ اس لیے مسیحیوں کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہونے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور ان کے لیے زیارت گاہ تھا۔ حضرت عمر کے زمانہ سے وہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور بڑے بڑے انبیا کے مقبرے یہاں تھے اس لیے بیت المقدس کا شہر اور زمین ان کے لیے مسیحیوں سے کہیں زیادہ متبرک اور مقدس تھی۔ مسلمانوں نے متبرک مقامات کی ہمیشہ حفاظت کی۔ چنانچہ غیر مسلم زائرین جب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے یہاں آتے تو مسلم حکومتیں انہیں ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچاتیں۔ ان کے گرجے اور خانقاہیں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھے۔ حکومت نے انہیں اعلیٰ مناصب پر فائز کر رکھا تھا لیکن خلافت اسلامیہ کے زوال اور انتشار کے دور میں ان زائرین نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں ان کی تنگ نظری اور تعصب کی بدولت مسلمانوں اور مسیحیوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ جاہل اور متعصب زائر جب واپس جاتے تو مسلمانوں کی زیادتیوں کے فرضی افسانے گھڑ کر اہل یورپ کے جذبات کو بھڑکاتے۔ یورپ کے مسیحی پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف تھے اب ان حالات میں ان کے اندر نفرت و حقارت کے جذبات نے مزید تقویت پائی۔ چنانچہ دسویں صدی عیسوی کے دوران یورپ کی مسیحی سلطنتوں اٹلی، فرانس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ نے سر زمین فلسطین کی دوبارہ تسخیر کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے ایک بار پھر مسیحی مملکت میں تبدیل کیا جاسکے۔
اس دوران میں سارے یورپ میں ایک افواہ خواص و عام میں بے حد مقبول ہو گئی کہ یسوع (عیسیٰ) دوبارہ نزول فرما کر مسیحیوں کے تمام مصائب کا خاتمہ کریں گے لیکن ان کا نزول اسی وقت ہوگا جب یروشلم کا مقدس شہر مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرالیا جائے۔ اس افواہ نے مسیحیوں کے مذہبی جوش میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
مسیحی مذہبی رہنماؤں نے یہ چیز عام کر دی تھی کہ اگر کوئی چور، بدمعاش اور بدکردار بھی بیت المقدس کی زیارت کر آئے گا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا اس عقیدہ کی بنا پر بڑے بڑے بدکردار لوگ بھی زائروں کی صورت میں بیت المقدس آنا شروع ہو گئے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت وہ ناچتے اور باجے بجاتے اور شوروغل کرتے ہوئے اپنے برتری کا اظہار کرتے اور کھلے بندوں شراب نوشی کے مرتکب ہوتے۔ چنانچہ زائرین کی ان نازیبا حرکات اور ان کی سیاہ کاریوں، بدنظمی اور امن سوز سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں لگا دی گئیں۔ لیکن ان زائرین نے واپس جاکر مسلمانوں کی زیادتیوں کے من گھڑت افسانے لوگوں کو سنانے شروع کر دیے تاکہ ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔
مسیحی اس وقت دو حصوں میں منقسم ہو چکے تھے۔ ایک حصے کا تعلق یورپ کے مغربی کلیسیا سے تھا جس کا مرکز روم تھا۔ دوسرا مشرقی یا یونانی کلیسیا جس کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ دونوں چرچ کے ماننے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ روم کے پوپ کی ایک عرصہ یہ خواہش تھی کہ مشرقی بازنطینی کلیسیا کی سربراہی بھی اگر اسے حاصل ہو جائے اور اس طرح وہ ساری مسیحی دنیا کا روحانی پیشوا بن جائے گا۔ اسلام دشمنی کے علاوہ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس نے اعلان کر دیا کہ ساری دنیا کے مسیحی بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ اس کے سب گناہ دھل جائیں گے۔ اور فتح کے بعد جو مال و زر حاصل ہوگا وہ ان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ نتیجہً مسیحی دنیا مسلمانوں کے خلاف دیوانہ وار اٹھ کھڑی ہوئی۔
پوپ اربن ثانی مغربی یورپ کے کلیسیا کا سربراہ تھا۔ وہ بڑا جاہ پرست اور جنگ باز مذہبی رہنما تھا۔ یورپ کے حکمرانوں میں اس کا وقار کم ہو چکا تھا۔ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اس نے مسیحیوں میں مذہبی جنگی جنون پھیلانا شروع کر دیا۔ جنگ کے نام پر مسیحیوں کی بالادستی اور مسلمانوں کی شکست و ریخت کا قائل تھا۔ اس نے چرچ کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مناسب سمجھا کہ مسیحی دنیا کو مذہبی جنگوں کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس طرح اس نے صلیبی جنگوں کی راہ ہموار کی۔

سیاسی اسبابترميم

عساکر اسلام نے اپنے عروج کے زمانے میں بڑی بڑی سلطنتیں زیر و زبر کر دی تھیں۔ افریقا، ایشیا، جزائر بحیرہ روم (صقلیہ و قبرص) وغیرہ اور اسپین و پرتگال سب ان کے زیر نگیں تھیں۔ اب گیارہویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت بدل چکی تھی مصر میںعبیدی سلطنت روبہ زوال تھی۔ سسلی میں مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے بحیرہ روم کے مسیحی زور پکڑ چکے تھے سپین میں اگر یوسف بن تاشفین میدان عمل میں نہ آتے تو اسپین سے مسلمانوں کا اخراج بہت پہلے مکمل ہوچکا ہوتا۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کے اس سیاسی غلبے کے خلاف یورپ کے مسیحیوں کا اجتماعی رد عمل تھا۔
سلاجقہ کا دور مسلمانوں کے عروج کا آخری شاندار باب ہے۔ انہوں نے ایشیائے کوچک کے تمام علاقے فتح کرکےقسطنطنیہ کی فتح کے لیے راہیں کھول دی تھیں۔ اور اگرملک شاہ سلجوقی کے بعد کوئی نامور حکمران تخت نشین ہوتا تو شاید قسطنطنیہ کی تسخیر شرمندہ تعبیر ہوجاتی۔ قسطنطنیہ مسیحی یورپ پر اسلامی یلغار کو روکنے کے لیے آخری حصار کا کام دے رہا تھا۔ لہٰذا سلجوقیوں کی قوت سے خوفزدہ ہو کر بازنطینی حکمران مائیکل ڈوکس نے 1094ء میں مغربی ملکوں کو ترکوں کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف متوجہ کیا اور ان سے امداد طلب کی۔ چنانچہ ساری مسیحی دنیا نے اس کی استدعا کو فوراً قبول کر لیا اور میدان عمل میں نکل آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ایک سیلاب سرزمین اسلام کی طرف امڈ آیا۔
اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر مشرق کے بازنطینی کلیسیا اور مغربی کلیسیا کے درمیان میں سمجھوتہ ہو گیا اور دونوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔
عالم اسلام میں باہمی اتحاد کا فقدان تھا۔ بغداد کیعباسی اور مصر کی فاطمی خلافت، سلجوقی اور اسپینکے حکمران انحطاط کا شکار تھے ان کے درمیان میں باہمی اشتراک کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ لہٰذا صلیبیوں کے لیے اس سے نادر موقع اور کون سا ہو سکتا تھا۔

معاشرتی اسبابترميم

یورپ معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں پسماندہ تھا۔ سماجی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے مساوات، اخوت اور عدل و انصاف کے جن اصولوں کو مسلمانوں نے اپنے ہاں رواج دیا تھا یورپ کا مسیحی معاشرہ ابھی تک اس سے محروم تھا۔ غریب اور نادار لوگ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یورپ کا نظام جاگیرداری پر مبنی تھا۔ جاگیر دار غریب عوام کا خون چوس رہے تھے اور ان کے حقوق انہیں میسر نہیں تھے۔ صاحب اقتدار اور مذہبی گروہ نے ان لوگوں کی منافرت کا رخ اپنی بجائے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔
اخلاقی انحطاط سے بھی عوام کی حالت اچھی نہ تھی۔ یورپ کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے عوام کی توجہ اندرونی مسائل اور ان کی زبوں حالی سے ہٹانے کے لیے بیرونی مسائل کی طرف موڑ دی۔ ان لڑائیوں میں رضاکاروں کی معتدبہ تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے یونانی حسن کی لطافتوں کے لمس کی خاطر اس سفر میں شامل ہوئے تھے۔ مشہور فرانسیسی مورخ لیبان کا بیان اس دور کے معاشرہ کی صحیح ترین عکاسی کرتا ہے۔
جنت ملنے کے علاوہ ہر شخص کو اس میں حصول مال کا ذریعہ بھی نظر آتا تھا۔ کاشتکار جو زمیندار کے غلام تھے وہ افراد خاندان جو قانون کی رو سے وراثت سے محروم تھے وہ امرا جنہیں جائداد کا کم حصہ ملا تھا اور جن کی خواہش تھی کہ دولت کمائیں وہ راہب جو خانقاہی زندگی کی سختیوں سے تنگ تھے۔ غرض کل مفلوک الحال اور محروم الوارث اشخاص جن کی بہت بڑی تعداد تھی اس مقدس گروہ میں شریک تھے۔
گویا ان مذہبی راہنماؤں نے اپنی عیاشیانہ زندگی کو چھپانے کی خاطر عوام کی توجہ ان معاشرتی برائیوں سے ہٹانے کی کوشش کی۔

معاشی اسبابترميم

اسلامی دنیا کی خوشحالی اور دولت و ثروت کے چرچےیورپ میں عام تھے۔ یورپ ابھی تک خوشحالی کی ان منازل سے نہ گزرا تھا جن کا مشاہدہ مشرق کی اسلامی سلطنتیں کر چکی تھیں۔ لہٰذا یورپ کے وہ تمام عناصر جنہیں حصول زر کے ذرائع یورپ میں میسر نہ تھے اپنی قسمت آزمائی کے لیے اس مذہبی مہم میں شامل ہو گئے۔ ان کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور مال و دولت کے جمع کرنے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی تصدیق صلیبیوں کے اس طرز عمل سے ہوتی ہے جو انہوں نے ہنگری سے گزرتے ہوئے وہاں کے مسیحی باشندوں کے ساتھ روا رکھا۔
یورپ کے نظام حکومت میں جاگیرداری نظام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ معاشی نظام میں اس کی خرابیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ دولت کے تمام ذرائع امرا اہل کلیسا اور جاگیرداروں کا قبضہ تھا عوام مفلوک الحال تھے۔ کاشتکاروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ چنانچہ مذہبی طبقہ نے مذہب کی آڑ میں عوامی رد عمل کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ان لوگوں کی توجہ ملک کے معاشی مسائل سے ہٹی رہے۔ اس کے علاوہ قانون وراثت کے تحت محروم افراد نے بھی محض زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کے تحت اس کو ہوا دی ۔
فلسطین اور شام پر قبضہ کرنے کے بعد اٹلی کے باشندے اپنی سابقہ تجارتی ترقی کو بحال کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسلامی غلبہ کی بدولت اطالوی تاجروں کی تجارتی اجارہ داری ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا ان کا خیال تھا کہ اگر صلیبی جنگوں کی بنا پر فلسطین اور شام کا علاقہ مسلمانوں سے مستقل چھین لیا جائے تو یورپ کی معاشی حالت سدھر سکتی ہے۔ صليبى جنگیں عموماً مذهبى جنگیں تصوركى جاتى ہیں مگر حقيقت ميں يہ یورپ كى ان جنگی مهمات كا حصہ تهيں جو بحيرہ روم اور بحيرہ احمر كى تجارت پر قبضہ جمانے کی غرض سے مسلمانوں کے خلاف لڑی گيئں بيت المقدس پر قبضہ جمانا اور اسے مكمل عيسائىشہر ميں تبديل كرنا محض ايک جنگی نعرہ تها يورپ کے سنار اور تاجر "جنگی فتووں" کے لیے مسیحیت کے مركز"ويٹی كن" كو بهارى رشوت ادا كر کے جذباتى مسیحیوں كى فوج تيار كرواتے تھے تا كہ يورپ سے مشرقى ايشياءتک ان کے تجارتى بحرى راستے مسلمانوں سے محفوظ ہو سكيں اور مسلمان عرب تاجروں كى بجائے يورپين تاجر زيادہ سے زيادہ منافع كما سكيں۔

No comments:

Post a Comment